بنگلور:27/دسمبر(ایس او نیوز) سماج میں بے انتہا غربت، غذا کی کمی، ذات پات انسانی حقوق کی پامالی اور دلتوں پر مظالم جب تک برقرار رہیں گے، اس وقت تک یہ ملک ترقی پرور کہلانہیں سکتا۔یہ بات آج نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری نے کہی۔ آج شہر میں وکیلوں کی اسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ قومی کانفرنس برائے سماجی انصاف کا افتتاح کرتے ہوئے حامد انصاری نے کہاکہ ملک میں ہر 18منٹ میں دلت پر مظالم کا ایک واقعہ پیش آرہا ہے۔ ساتھ ہی سماجی انصاف سے محرومیت کی وارداتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک سماجی انصاف کے تقاضوں کو مکمل طور پر عملی شکل نہیں دی جاتی اس وقت تک ملک کو سیاسی، سماجی اور معاشی میدان میں ترقی نہیں مل سکتی اور نہ ہی سماج کے مظلوم اور کمزور طبقات کے ساتھ انصاف ہوسکتاہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کی 45 فیصد دولت پر قبضہ ایک فیصد لوگوں کا ہے۔ اس طرح کی عدم مساوات سے سرمایہ دار طبقہ کی اجارہ داری برقرار رہے گی اور کارپوریٹ طبقہ برسر عام لوٹ مچائے گا اور اس کا خمیازہ مزدور اور غریب طبقے کو بھگتنا پڑے گا۔امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج میں سماج میں عدم مساوات اور چھوت چھات کے نظام کو اب بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ جب تک یہ نظام برقرار رہے گا اس وقت تک سماج کے مظلوم طبقات کو انصاف دلانے کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔سماج کے طاقتور طبقے کو آگے بڑھ کر اس خواب کو شرمندہئ تعبیر کرنے کی پہل کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ سماجی انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کا ایک اہم آلہئ کار بن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے بعض فیصلے سماج میں مساوات کا سبب ضرور بنے ہیں، آنے والے دنوں میں بھی یہ ضروری ہے کہ عدالتیں اپنے اختیارات کے ذریعہ سماجی انصاف اور بنیادی حقوق کی حفاظت کا کام کریں۔ سماجی انصاف کے تقاضوں کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب معاشی میدان میں کمزور طبقات کو بہتر مواقع میسر آئیں۔ ملک میں عدم مساوات اورمعاشی پسماندگی کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس کیلئے حکومتوں کے ساتھ صاحب حیثیت طبقے کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ انسانی ترقی کے میزان پر ہندوستان کا جو مقام ہونا چاہئے تھابدقسمتی سے وہ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق آج بھی 37 فیصد دلت طبقات خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔54 فیصد تعلیم سے محروم ہیں۔ 39 فیصد بچے آج بھی اسکولوں سے باہر ہیں اور ساتھ ہی 24 فیصد آبادی کچے مکانات میں بسیرا کئے ہوئے ہے۔ ملک بھر میں مجموعی طور پر 60لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ان میں سے75فیصد کا تعلق درج فہرست ذاتوں اور قبائل، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں سے ہے۔ سروے کے مطابق 26 فیصد سے زائد بچے دسویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے اپنی تعلیم ترک کردیتے ہیں۔ یہ ملک میں ناخواندگی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟۔ دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ طبقات، مذہبی اقلیتوں، خواتین، بے گھر افراد،مشرقی علاقوں کے علاوہ اور دیگر غرباء کو سماجی انصاف دلانے کیلئے جب تک مرکزی اور ریاستی حکومتیں منظم طور پر منصوبہ بندی نہیں کریں گی، اس وقت تک ملک کے اتنے بڑے طبقے کو ترقی سے محروم رہنا پڑے گا۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے آئین میں اس بات پر زور دیاتھاکہ شہریان اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے خود کو منظم کریں۔ منظم تحریکوں کے ذریعہ ہی حقوق کی باز یابی ممکن ہے۔ اس موقع پر مخاطب ہوکر گورنر واجو بھائی والا نے وکلاء کو آواز دی کہ وہ مذہب اور اپنی ذاتی پالیسیوں سے اوپر اٹھ کر سماجی انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کریں اور سماج کے مظلوم طبقات کو انصاف دلائیں۔ سماج کا یہ طبقہ اگر انصاف سے محروم ہوگیا تو یہ ملک کیلئے باعث عار ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمات کو نمٹانے میں ہورہی تاخیر کی وجہ سے انصاف نہیں مل پارہا ہے۔ جلد از جلد اگر مقدمات کو نمٹا لیا جائے تو ملک کی ترقی کو بھی اس سے ہم آہنگ کیا جاسکتاہے۔ گورنر نے کہا کہ حکومت سے جڑے 95 فیصد مقدمات کو عدالتوں میں شکست کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سدرامیا نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ذات پات کی بنیاد پر امتیاز اور اچھوت کا نظام بدقسمتی سے آج بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے سماجی انصاف کے مقصد کو حاصل نہیں کیاجاسکتا۔ریاستی حکومت تمام طبقات کو انصاف دلانے کے موقف کی پابند ہے، تعلیم، روزگار، ہاؤزنگ، بنیادی حقوق کی حفاظت وغیرہ میں حکومت تمام طبقات کو یکساں نظریہ سے دیکھتی ہے، تقریب میں وزیر قانون ٹی بی جئے چندرا، انڈین اڈوکیٹ اسوسی ایشن کے صدر جتیندرا شرما اور دیگر متعدد وکلا ء موجود تھے۔